محمد ارشد فیضی قاسمی
ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے کہ اس وقت پورا ملک نفرت وعداوت ،ظلم و بر بریت اور تعصب و فرقہ پرستی کی چادر میں لپٹ کر کس طرح اپنی تباہی و بر بادی کا منظر دیکھ رہا ہے ،ہر طرف افرا تفری اور انارکی کا ماحول ہے ،ذاتی مفادات کے لئے قومی مفادات کو قر بان کر دئے جا نے کا گھناونا کھیل جا ری ہے ،نفرت و تعصب کے اس دلدل میں ملک کی آبرو اب سوالیہ نشان کے دائرے میں آ گئی ہے ،چاروں طرف مذہبی لسانی و علاقائی عصبیت کا طوفان کھڑا ہے ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق نے ملک کے اندر عجیب و غریب کیفیت کو جنم دے دیا ہے ،ملک دشمن طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور اکابر کے سپنوں کی تعبیر کہلانے والے اس دیش کے اندر آگ و خون کا ماحول پیدا کر نے کی سازشوں میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ مصروف ہیں، انسان خود انسان کا دشمن ہو چلا ہے، خود غرضی اور اندھی تقلید نے ہر کسی کی آنکھوں پر پٹی ڈال دی ہے ،سیاست دانوں کی گندی پالیسی سے ملک کے سیکولرزم پر خطرات کے ایسے گھنے بادل منڈلا رہے ہیں جو کسی بھی وقت اس کے وجود کو پامال کر سکتے ہیں،کل تک جو ملک امن و آشتی کا گہوارہ کہلا تا تھا آج وہاں خون کی ندیاں بہ رہی ہے ،اور سب سے بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے جن پرکھوں کا لہو لگا تھا اور جنہوں نے اپنا سب کچھ لٹا کر اس ملک کی آزادی کے خواب کو شر مندہ تعبیر بنا یا تھا ، آج کی ناپاک ذہنیت ان ہی کے کر دار کو مشکوک بنانے کی کوشش میں لگی ہے،بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ دیگر مجاہدین آزادی کے اصول و پیغام کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہے ،غرض یہ کہ اس وقت پورا ملک جس سیاسی روش کا شکار ہے اور اس کے اندر جس مذہبی نظرئے کو پروان چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے اس نے ہر طبقہ کی پیشانیوں پر نہ صرف فکر کی لکیر کھینچ دی ہے بلکہ خطرہ اس بات کا بھی ہے کہ اگر اس ماحول کو پنپنیاور ملک کے خلاف رچی جا رہی سازشوں کا معقول حل تلاش کر نے کی اجتماعی حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو یہ ملک کسی بھی وقت دم توڑ کر تاریخ کا حصہ بن جا ئے گا ، ایسی صورت حال میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ علماء4 ایک بار پھر پوری قوت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ میدان سیاست میں آکر ملک کی آبرو کو بچا نے کا فرض نبھاتے اورہندوستان کے اندر وہی تاریخ دہرائی جاتی، جو ملک کی آزادی سے جڑی ہے ،اور مجھے چڑھتے سورج کی طرح یہ یقین ہے کہ یہی علماء4 آج کے اس نازک دور میں ہندوستان کی عزت وآبرو کو داغدار ہو نے سے بچاسکتے ہیں اور سچ تو یہ بھی ہے کہ اگر علماء4 نے اپنے آپ کو سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا تو اس ملک کا نقشہ بدل جائے گا،مگر نہ معلوم کیوں آج آپ خاموش تماشائی بن کر اس ملک کی آبرو کو اپنی آنکھوں سے لٹتا دیکھ ر ہے ہیں ،حالاں کہ آپ تو اس ملک کی آبرو اور اس کا وقار ہیں اوریہی نہیں بلکہ آپ ہی نے تو اس کو اپنے پاکیزہ خون سے سینچا اور سنوارا ہے ،آج کے اس نازک وقت میں مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آج اگر یہ ملک پوری آزادی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے تو یہ بس آپ علماء4 کی ہی ناقابل فراموش قر بانیوں کا نتیجہ ہے ،اور ہاں میں اپنی چھوٹی زبان سے آپ کو کیا یاد دلاوں کہ وہ آپ ہی تو تھے جنہوں نے انگریزوں کی گولیوں کے سامنے اپنا سینہ پیش کر کے اس دیش کو آزادی دلائی تھی ،اور بھلا آپ کے اس کر دار کو کون بھلا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے مادر وطن کی آزادی کے لئے پھانسی کے پھندے کو چوم کر خوشی خوشی اسے اپنے گلے کا گہنا بنا لیا تھا ،اور ظالم انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس جرات سے بات کی تھی کہ انہیں اس ملک کو چھوڑ کر چلا جانا پڑا ،آج کی دنیا کو کیا معلوم کہ اگر آپ نے خود کو انگریزوں کے خلاف میدان میں نہ لا کھڑا کیا ہو تااور انگریزوں کے خلاف طویل جنگ نہ کی ہوتی تو آزادی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو تا شاید آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ آپ نے اس ملک کی آزادی کے لئے اس وقت سے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا جب دوسری قوم اس کے شعور سے بھی عاری تھی ،تاریخ کو تو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ 1799 سے لے کر 1857 تک تنہا انگریزوں سے نبرد آزما رہے اور اس لمبے عرصے میں کبھی بھی
آپ نے مصلحت یا مصالحت سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کبھی انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے،آپ کو تو یاد ہی ہو گا کہ اس ملک کی آزادی کے لئے آپ نے اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی عورتوں کو بیوہ کر دیا ،انگریزوں کے خلاف کھڑے ہونے کے جرم میں نہ جانیں کتنی قیمتی جانیں شہید ہوگئیں ،آپ کی تعلیم گاہیں جلاکر راکھ کر دی گئیں آپ کی عبادت گاہوں کو نفرت کے ہتھوڑے سے زمیں دوز کر دیا گیا ،آپ کے معصوم بچوں کو بے دین بنانے کی نہ صرف پالیسیاں بنائی گئیں بلکہ اس کے لئے طریقے اپنائے گئے جس کا خیال آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے،مگر ان سب کے باوجود آپ نے اس وقت تک اطمینان کی سانس نہ لی جبتک یہ سرزمین انگریزوں سے پاک نہ ہو گئی اور اس کی پیشانی پر ترنگا نہ لہرا گیا ،خیر آپ کی قربانیوں کی تو ایک طویل داستان ہے مگر نہیں اب انہیں دہرانے کی بجائے آپ کو یہ یاد دلا دینا ضروری ہے کہ ایک وقت تو وہ تھا جب آپ نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قر بان کر دیا تھا لیکن آج وہی ملک فرقہ پرستی کے نرغے میں پھنس کر سسکیاں لے رہا ہے اور ہاں ذرا یہ بھی خیال رہے کہ اس وقت آپ کا ملک نشانے پر تھا لیکن آج آپ کا دین آپ کی شریعت اور آپ کیمذہبی دستور نشانے پر ہیں آپ کے پرسنل لا پر ترچھی نگاہ ڈلی جارہی ہے،آپ کو تو احساس ہی ہو گا کہ آج ہر چہار جانب سے آپ پر حملوں کا سلسلہ جا ری ہے ،آپ کے مدارس و مساجد اور دینی درسگاہیں دشمنوں کے نشانے پر ہیں ،آپ کی عزت و آبرو کی کھلے عام سودے بازی ہو رہی ہے ،آپ کو اپنے ہی ملک کے اندر بیگانہ بنا دینے کا گھناونا کھیل جاری ہے ،قدم قدم پر آپ کی غیرت و خداری کے امتحان لئے جا رہے ہیں اورآپ کے دینی شعور کو ٹٹولنے کی کوشش ہو رہی ہے ،آج نہ صرف آپ کے حقوق پامال کئے جارہے ہیں بلکہ آپ کو تعلیمی اور معاشی اعتبار سے کمزور بنانے کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہے ،آپ کے نوجوان اور آپ کی نئی نسلیں فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں ،غرض یہ کہ یہ اور اس طرح کی وہ دیگر سچائیاں ہیں جو آپ کے مستقبل کے سامنے سوالیہ لکیر بن کر کھڑی ہے اور آپ سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ ایک مرتبہ پھر اس ملک اور اپنے مستقبل کو تاریکی کی دلدل میں جانے سے بچانے کے لئے خانقاہوں اور تعلیمی درسگاہوں کے دائرے سے باہر نکل کر میدان سیاست میں قدم رکھیں ،ارے آپ تو اس نبی کی امت ہیں جن کی سیاسی زندگی ہمیں ہمیشہ بلند حوصلے کا احساس دلاتی ہے ،آج پورا ملک نظریں اٹھاکر آپ کی طرف دیکھ رہا ہے ،انہیں یہ بات بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آپ سیاست کے پلیٹ پر آگئے تو فرقہ پرست جماعتیں کبھی بھی اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں میں جانتا ہوں کہ اسلام قیامت تک کامذہب ہے اور مسلمان قوم اس وقت تک باقی رہے گی جبتک اس دنیا کا نظام قائم ہے اس کو مٹانے کا سپنہ دیکھنے والے تو ختم ہو جائیں گے مگر اسلام یوں ہی پھلتا پھولتا رہے گا ،آپ اپنے اسی ملک کو دیکھ لیجئے کہ یہاں مسلمانوں کو مٹانے کے لئے آخر وہ کون سا طریقہ تھا جو نہ اپنایا گیا اور کون سی سازش تھی جو مسلمانوں کے خلاف نہ رچی گئی ،مگر کیا اس ملک سے اسلام مٹ گیا؟ کیا اسے ماننے والے ختم ہو گئے ؟ بلکہ مسلمان اسی نشیب و فراز کے ساتھ پچھلی چھ دہائیوں سے اس ملک میں زندہ ہے ،تاہم آپ کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مرتبہ پھرآج آپ کے سامنے باطل قوتیں بڑی چالبازی سے کھڑی ہیں ،ایسی صورت حال میں یاد رکھئے کہ اگر آج بھی آپ نے خود کو تیار نہ کیا تو ملک پھر سے غیر یقینی حالات کا شکار ہو جا ئے گا ،اس لئے میں آپ سے کہونگا کہ آپ اپنی سیاسی بیداری کو ثبوت دیجئے اور بدلتے حالات کے مزاج کو پوری شدت سے محسوس کر کے اپنی مضبوط سیاسی صف بندی کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں ایک خوشگور سیاسی انقلاب کی امید جگ سکے ،کیوں کہ تاریخ آج بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جو قوم سیاست کر نا بند کر دیتی ہے وہ ناپید ہو جا تی ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاست سے دوری آپ کے مستقبل کو تاریک بنا دے ،مجھے صرف یہ خطرہ نہیں کہ آنے والے وقت میں آپ کی فکر وزبان پر تالے لگا دئے جاۂں گے ،بلکہ ڈر تویہ ہے کہ کہیں آپ کے وجود و استحکام پر بھی سوالیہ لکیر نہ ڈال دہ جائے۔
(مضمون نگار پیام انسانیت ایجو کیشنل ٹرسٹ بہار کے صدر ہیں، رابطہ : 9708285349 )